تحریر: استاد شہید مطہریؒ
ترجمہ: سکندر علی بہشتی
حوزہ نیوز ایجنسی। کتاب شریف الغدیر نے دنیائے اسلام میں عظیم طوفان پرپا کیا ہے۔اسلامی دانشوروں نے مختلف جہات اور پہلوؤں جیسے ادبی،،تاریخی،کلامی، حدیثی،تفسیری اور اجتماعی لحاظ سے اس کا جائزہ لیا ہے۔اس پر اجتماعی نکتۂ نگاہ سے جو بحث ہوسکتی ہے وہ وحدت اسلامی ہے۔عصرحاضر کے اسلامی مصلحین،دانشور اور روشن فکر اسلامی فرقوں کے درمیان اتحاد اور ہم بستگی کو اہم ترین اسلامی ضرورت قرار دیتے ہیں خصوصاً موجودہ صورتحال کے پیش نظر جہاں دشمن ہر طرف سے حملہ آور ہے اور مسلسل مختلف ذرائع کو استعمال کرکے پرانے اختلافات کو گہرا اور نئے اختلافات کو ایجاد کر رہے ہیں جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ بنیادی طور پر وحدت واخوت اسلامی پر شارع مقدس نے خاص توجہ اور اسے بڑی اہمیت دی ہے اور یہ اسلام کے اہم اہداف میں سے ہے، قرآن وسنت اور تاریخ اس پر گواہ ہے۔
اس لئے بعض افراد کیلئے یہ سوال پیش آیا ہے کہ کیا الغدیر جیسی کتاب کی تالیف اور اس کی اشاعت (جو کہ مسلمانوں کے درمیان بہت ہی قدیمی اختلافی موضوعات میں سے ہے) اس مقدس ہدف اور بلند نظریے(وحدت اسلامی)کی راہ میں رکاوٹ نہیں؟
ہم ضروری سمجھتے ہیں کہ مقدمے کے عنوان سے اصل مسئلہ(یعنی وحدت کا معنی اور اس کی حدود) کو روشن کریں،پھر الغدیر اور اس کے عظیم مصنف علامہ امینی رضوان اللہ علیہ کے کردار کو واضح کریں۔
وحدت اسلامی:
وحدت اسلامی سے کیا مراد ہے؟
کیا اس کا مقصد یہ ہے کہ اسلامی مذاہب میں سے ایک کو انتخاب کیا جائے اور دوسرے تمام مسالک کو چھوڑ دیا جائے؟
یا اس کا مقصد یہ ہے کہ تمام مذاہب کے مشترکہ نکات کو لیا جائے اور اختلافات کو چھوڑ کر اس طرح ایک نیامذہب ایجاد کیا جائے جو موجودہ مذاہب میں سے کسی سے کوئی مماثلت نہ رکھتا ہو؟
یا وحدت اسلامی کا وحدت مذاہب سے کوئی ربط نہیں بلکہ ہدف اتحاد مسلمین ہے اور مختلف مذاہب کے پیروکاروں کے مذہبی اختلافات کے باوجود دشمنوں کے مقابلے میں اتحاد ہے؟
مسلمانوں کے اتحاد کے مخالف وحدت اسلامی کو غیر منطقی اور ناقابل عمل بنانے کے لیے اس کی وحدت مذاہب کے نام سے تفسیر کرتے ہیں تاکہ پہلے ہی قدم پر یہ کام شکست سے دوچار ہو۔ظاہر ہے وحدت اسلامی کا ہدف مسلمان روشن فکر علما کی نظر میں تمام مذاہب کو ایک ہی مذہب میں محدود کرنا یا مشترکات کو لے کر ختلافات کو چھوڑ دینا نہیں اور یہ معقول،منطقی،مطلوب اور عملی بھی نہیں بلکہ علماے اسلام اور مسلمان دانشوروں کے پیش نظر تمام مسلمانوں کا ایک ہی صف میں مشترکہ دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا ہے۔
یہ دانشور کہتے ہیں کہ مسلمانوں میں مشترکہ نکات بہت زیادہ ہیں جو ایک محکم اتحاد کے لیے بنیاد بن سکتے ہیں،تمام مسلمان ایک ہی خدا کی عبادت کرتے ہیں،رسول اکرم کی ختم نبوت پر ایمان اور یقین رکھتے ہیں، سب کی کتاب قرآن اور قبلہ کعبہ ہے،سب ایک ساتھ ایک ہی طریقے پر حج انجام دیتے ہیں،ایک ہی طریقہ پر نماز پڑھتے ہیں،بچوں کی تربیت کرتے ہیں اور مردوں کو دفن کرتے ہیں۔جزئی مسائل کے علاوہ ان امور میں کوئی فرق نہیں۔تمام مسلمان ایک تصور کائنات کے معتقد ہیں اور مشترکہ ثقافت اور ایک عظیم وباشکوہ تمدن میں سب کے سب شریک ہیں۔ تصور کائنات،ثقافت، تمدن،گفتار ورفتار،مذہنی عقائد،عبادات ومناجات،اجتماعی آداب ورسومات یہ سب کے سب بہتر طریقے سے ایک ملت کو تشکیل دے سکتے ہیں اور عظیم او ربڑی قدرت کو وجود میں لاسکتے ہیں کہ جس کے سامنے دنیا بھر کی بڑی طاقتیں سرتسلیم خم کریں۔ جبکہ اسلامی متون میں اس اصل پر تاکید ہوئی ہے اورقرآن کی صریح نص کے مطابق مسلمان ایک دوسرے کے بھائی بھائی ہیں،حقوق اور خاص فرائض سب کو ایک دوسرے کے ساتھ مربوط کرتے ہیں۔ اس حالت میں،اس قدر وسیع امکانات سے جو اسلام کی برکت سے ان کو نصیب ہوئے ہیں، مسلمان کیوں استفادہ نہیں کرتے؟
ان علما کی نظر میں اس بات کی کوئی ضرورت نہیں کہ مسلمان،اتحاد اسلامی کی خاطر اپنے مذہبی اصول اور فروع میں ساز باز یاان سے چشم پوشی کریں،اسی طرح یہ بھی لازم نہیں کہ مسلمان اصول وفروع کے اختلافی مسائل میں بحث اور استدلال نہ کریں یاکتاب نہ لکھیں۔
اس لحاظ سے اتحاد کے لیے فقط ایک چیز لازم ہے اور وہ یہ ہے کہ مسلمان(آپس میں کینہ و دشمنی کے جذبات ایجاد یا ابھارے بغیر) اپنے وقار کا تحفظ کریں،ایک دوسرے پر سب وشتم نہ کریں،ایک دوسرے پر تہمت نہ لگائیں،جھوٹ نہ باندھیں، ایک دوسرے کے عقائد کا مذاق نہ اڑائیں یعنی ایک دوسرے کے احساسات کو مجروح نہ کریں اور منطق واستدلا ل کی حدود سے خارج نہ ہوں۔درحقیقت (کم ازکم) وہ حدود جو غیر مسلموں کو اسلام کی طرف دعوت دیتے وقت مد نظر رکھے جاتے ہیں،آپس میں ان کی رعایت کریں:ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ و جادلھم بالتی ھی احسن۔
بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ مذاہب جو صرف فروعی مسائل میں ایک دوسرے سے اختلافات رکھتے ہیں جیسے شافعی وحنفی،یہ آپس میں بھائی بھائی ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ایک ہی صف میں شامل ہیں لیکن وہ مذاہب جو اصول میں ایک دوسرے سے اختلاف نظر رکھتے ہیں وہ ایک دوسرے کے بھائی نہیں ہوسکتے۔اس گروہ کی نظر میں مذہبی اصول ایسا مجوعہ ہے جو ایک دوسرے سے پیوستہ ہے اور علم اصول کی اصطلاح میں (اقل واکثر ارتباطی) کی قسم ہے یعنی کسی ایک کو کوئی نقصان پہنچے تو باقی بھی اس سے متاثر ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے جہاں مثلا اصل امامت کو نقصان پہنچے تواس اصل کے قائلین کی نظر میں وحدت واخوت کا موضوع منتفی ہے۔اسی دلیل کی بنا پر شیعہ وسنی کسی صورت میں دو بھائیوں کے عنوان سے ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہاتھ نہیں دے سکتے چاہے ان کے مقابل دشمن کوئی بھی ہو۔
پہلا گروہ اس کا جواب دیتا ہے کہ ہمارے پاس اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ ہم اصول کوایسا مجموعہ شمار کریں جوجڑے ہوئے ہیں اور یہ اصل ”سب یاکچھ نہیں“ پر عمل کریں۔یہ جگہ قانون
”المیسور لایسقط بالمعسور“
اور
”مالا یدرک کلہ لایترک کلہ“
کی جگہ ہے اور حضرت امیر المومنین علی ؑکی سیرت اور روش میں ہمارے لئے بہترین سبق موجود ہے۔ حضرت علی ؑنے منطقی اور معقول راہ وروش اپنائی جوعلی ؑ جیسی بزرگوار شخصیت کے شایان شان تھی۔
آپ نے اپنے حق کے اثبات کے لئے کسی بھی قسم کی کوشش سے دریغ نہیں کیا اوراس کے لیے تمام امکانات کو استعمال بھی کیا تاکہ اصل امامت کو زندہ کرسکیں۔لیکن ہرگز”سب یا کچھ نہیں“ کے شعار کی پیروی نہیں کی۔اس کے برعکس مالا یدرک کلہ لایترک کلہ کو اپنے امور کے لئے اساس اور بنیاد قرار دیا۔
علی ؑ نے اپنے حق کو غصب کرنے والوں کے مقابلے میں قیام نہ کیا اورآ پ کا قیام نہ کرنا کسی مجبوری کی وجہ سے نہ تھا بلکہ مکمل منصوبہ بندی کے ساتھ اور انتخابی تھا۔آپ کو موت سے خوف نہ تھا،آپ نے کیوں قیام نہ کیا،زیادہ سے زیادہ آ پ کو قتل کیا جاتا۔خدا کی راہ میں شہید ہونا آپ کی آخری تمنا تھی۔آپ ہمیشہ شہادت کی تمنا کیا کرتے تھے اور اس سے ماں کے سینے سے زیادہ مانوس تھے۔آپؑ کی دقیق نگاہ اس نکتہ پر مرکوز تھی کہ ان حالات میں اسلام کی مصلحت نہ صرف قیام نہ کرنے میں بلکہ تعاون اور مدد کرنے میں ہے۔ آپ نے بارہا اس مطلب کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے۔ امام اپنے ایک خط (نہج البلاغہ خط:۲۶)میں مالک اشتر کو لکھتے ہیں:
فامسکت یدی حتی رایت راجعۃ الناس قد رجعت عن الاسلام یدعون الی محق دین محمد صلی اللہ علیہ و آلہ، فخشیت ان لم انصر الاسلام و اھلہ ان اری فیہ ثلما او ھدما تکون المصیبۃ بہ علی اعظم من فوت ولایتکم التی انما ھی متاع ایام قلائل.
ان حالات میں، میں نے اپنا ہاتھ روکے رکھا۔ یہاں تک کہ میں نے دیکھا کہ لوگوں کا ایک گروہ اسلام سے منہ موڑ کر دین محمد کو مٹا دینے پر تُل گیا ہے۔ مجھے اس بات کا خوف ہوا کہ کوئی رخنہ یا خرابی دیکھنے کے باوجود اگر میں اسلام اور اہل اسلام کی مدد نہ کروں، تو یہ میرے لئے اس سے بڑی مصیبت ہوگی جتنی تمہاری حکومت میرے ہاتھ سے چلی جانے کی مصیبت، جو تھوڑے دنو ں کا اثاثہ ہے۔
چھے نفری شوری میں عبد الرحمن ابن عوف کے ذریعے عثمان کے انتخاب کے موقع پر اپنی شکایت اور تعاون کے لیے آمادگی کو ان الفاظ میں بیان کیا۔
لقد علمتم انی احق الناس بھا من غیری و واللہ لاسلمن ما سلمت امور المسلمین و لم یکن فیھا جور الا علی خاصۃ.
تم لوگ اچھی طرح جانتے ہو کہ میں اپنے غیر کے مقابلے میں اس (امر خلافت) کا زیادہ حقدار ہوں اور خدا کی قسم! جب تک مسلمانوں کے امور کا نظم و نسق بر قرار رہے گا اور صرف میری ذات ظلم و جور کا نشانہ بنتی رہے گی، میں خاموشی اختیار کئے رہوں گا۔(خطبہ،۲۷)
یہ اس مطلب کی جانب اشارہ ہے کہ علی علیہ السلام”سب یا کچھ نہیں“ کے اصل کو اس جگہ قبول نہیں کرتے تھے، اس موضوع کے بارے میں آنحضرت ؑ کی روش اور سیرت پر زیادہ بحث کر نے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس بارے میں شواہد اوردلائل تاریخی بہت زیادہ ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔